“دادی کہانی نہیں سنا رہی”

“دادی کہانی نہیں سنا رہی”

مختصر کہانی پشتو ادب سے

دادی کا حافظہ کام نہیں کررہا اور اسے کہانیاں یاد نہیں رہتی۔ بچے ضد کر رہے ہیں کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی کہانی سنائی جائے۔دادی ناراض ہو جاتی ہے کہ کہاں سے سناوں۔اب رات کے اندھیرے میں بچے ایک نئی فرمائش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فرضی کہانی سنائی جائے۔دادی بھی صاف صاف انکار کرتی ہے کہ نگوڑوں میں تم کو کوئی فرضی کہانی نہیں سناؤں گی۔ کیوں کہ کہانی جب فرضی ہو جاتی ہے ،تو وہ کہانی نہیں رہتی۔ اگلے دن بارش اور سخت سردی میں اچانک ایک پرندہ درخت سے گرتا ہے۔دادی روتی ہے کہ دیکھو اس پرندے کی موت کی وجہ سے بہت ساری کہانیاں ختم ہوگئیں۔بچے فرمائش کرتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے، کہانی سناؤ،چھوڑو بیکار کی باتیں۔دادی کہتی ہے کہ بتایا نا کہ کہانی یاد نہیں رہتی۔دیکھو آج ایک پرندہ مرا،اس کا مطلب ہے کہ اب تو کہانی سنانے والے ختم ہو رہے ہیں ۔اچانک ایک بڑا سا بچہ خوشخبری دیتا ہے کہ دادی آپ کے پسندیدہ بلبل اور مینا درخت پر بیٹھے ہیں، آو ان سے کہانیاں سنتے ہیں۔دادی جب خوشی خوشی بچوں کے ساتھ درخت کے پاس جاتی ہے،تو چیخ اٹھتی ہے کہ اب تو کہانی کی موت واقع ہو گئی ہے،سچ مچ کی موت،کہانی کار کو مار دیا گیا ہے،اسے قتل کردیا گیا ہے،کیوں کہ دونوں پرندوں کے منہ بندھے ہیں۔
اختتام

Leave a comment