“The fear” by danish writer TOVE DITLEVSEN and Nasar Malik

“The fear” by danish writer TOVE DITLEVSEN and Nasar Malik

ادب سیر فاروق سرور

ڈنمارک کی نامور ادیبہ ٹووِ ارما مارگریٹ ڈٹلیوسن کی تخلیق “خوف ”
موجودہ صدی ، خوف کی صدی ؟
ذکر پانچ خوفناک چڑیلوں اور ان کے خوفناک ارادوں کا
ڈنمارک کے بزرگ ادیب نصر ملک اور ان کے ترجمے کا فن
نامور علمی شخصیت شبنم رومانی اور نصر ملک

موچی کا کردار ادب میں ایک خوبصورت تصور کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے،بچپن میں اسی کردار کے متعلق ہم نے اپنے بزرگوں سے بہت ساری خوبصورت اور دلچسپ لوک کہانیاں سنیں ،پھر بعد میں طالب علمی کے زمانے میں سوویت اور چینی کہانیوں میں اس کردار کو بہت ہی خوبصورت روپ میں پایا،لیکن اب جب ڈنمارک کی نامور ادیبہ ٹووِ ارما مارگریٹ ڈٹلیوسن کی تخلیق “خوف ” کا مطالعہ کیا،تو سخت حیرت ہوئی،کیونکہ انہوں نے اس کہانی میں “موچی” کو خوف کے ایک انتہائی بدنما اور بدصورت شکل میں دکھایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے اور اسی لیئے یا اسی تجسس میں ہم اس کہانی کو آگے پڑھتے گئے۔
کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈنمارک کے ایک قصبے میں جارج بابو نام کا شخص ، ایک پرانا اور بوڑھا سرکاری کلرک ہے ۔کہانی کی ابتداء ایک ایسے واقعے سے ہوتی ہے ، جو بظاہر حادثہ بھی ہے اور نہیں بھی ۔ایک دن صبح کے وقت جب وہ اپنے دفتر کو جاتا ہے،تو گھر سے نکلتے ہی محلے میں ، وہ اپنے ہمسائے نیلسن موچی کو سلام ڈالتا ہے ، جس کا اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔
جواب کا نہ ملنا جارج بابو کے لیے قیامت کے کسی لمحے سے کم نہیں ہوتا۔وہ پیدل سفر کرتا ہے اور پھر ریل گاڑی میں اور تب دفتر پہنچ جاتا ہے۔دفتر میں اس کی ساتھی مس ہنسن اس کے ساتھ دفتری معاملات پر بات چیت کرنا چاہتی ہے،لیکن اس کی توجہ اور اس کا ذہن برے طریقے سے نیلسن موچی میں پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ اس نے اس کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا۔شاید اس کے سیاسی نظریات کی وجہ سے یا شاید کسی غلط فہمی کی وجہ سے۔یہ معمولی سی بات اس کے لیے پہلے پریشانی اور پھر ایک بہت بڑے خوف میں تبدیل ہو جاتی ہے۔نیلسن موچی اس کے لیے ایک خونخوار دیو بند جاتا ہے۔جارج بابو انتہائی حساس اور شریف قسم کا شخص ہوتا ہے۔شام کو دفتر سے واپسی پر جب وہ گھر کی طرف لوٹ رہا ہوتا ہے،تو اس کی کچھ ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جیسے نیلسن موچی اسے قتل کر دے گا۔اپنے محلے میں اچانک ہی اس کا ٹاکرا نیلسن موچی کے ساتھ ہو جاتا ہے،نیلسن کو دیکھ کر اس کی تو جان ہی نکل جاتی ہے کہ اب وہ قتل ہوجائے گا،لیکن نیلسن موچی اس کے ساتھ بہت ہی اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے اور اس کی طبیعت اور اسکے بال بچوں کا بہت ہی خوبصورت انداز میں ، حال حوال پوچھتا ہے اور اس کے لہجے میں سخت قسم کا احترام بھی ہوتا ہے۔جونہی وہ اپنے گھر کی دہلیز میں داخل ہو جاتا ہے،تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے ، جیسے اس کے ذہن سے منوں وزنی بوجھ اتر گیا ہو ۔
اس سے پہلے کہ موجودہ کہانی پر بات چیت ہو،آئیے اس کی مصنفہ کا تعارف،کہانی کے مترجم جناب نصر ملک کے ذریعے آپ سے کروا لیتے ہیں۔
پیدائش : 14دسمبر 1917ء ۔۔۔۔۔۔۔۔ وفات : 7مارچ 1976ء
اُن کا اصلی نام ٹووِ ارما مارگریٹ ڈٹلیوسن TOVE DITLEVSEN تھا ۔ وہ اپںے عہد کی ایک ممتاز شاعرہ و ادیبہ تھیں ۔ وہ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں پیدا ہوئیں اور محنت کشوں کے محلے ویسٹربرو میں پروان چڑھیں ۔ جہاں ان کے نام سے منسوب ایک گلی، ایک چوہراہا، ایک سکول اور ایک آرٹ گھر، ایک شراب گھر اور اس سے ملحقہ ایک باغیچہ قائم ہے ۔ ان کے بچپن و لڑکپن کے تجربات ان کے تخلیقی کام کے فوکل پوائینٹس تھے ۔ انہوں نے چار بار شادی کی اور اپنے خاوندوں کو خود ہی طلاقیں دیں ۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1939ء میں شائع ہوا اور پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کی کہانیوں، افسانوں، نظموں اور مضامین کے مجموعوں کے ساتھ ساتھ ناول بھی سامنے آنے لگے، اور وہ ادبی حلقوں میں بقول شخصے ایک ہی جست میں عروج پر جا پہنچیں اور ڈینش قارئین ہی نہیں اسکینڈے نیویا کی دوسرے ممالک میں بھی بیحد مقبول ہو گئیں ۔ ان کا ایک ناول بعنوان “GIFT” جو ڈینش زبان میں بیک وقت دو معنی یعنی، ’’ شادی‘‘ اور ’’زہر ‘‘ رکھتا ہے ایک زبردست متنازع ناول سمجھا جاتا ہے اور اس کی اشاعت سے ملک بھر میں ایک ہلچل مچ گئی تھی ۔
اُن کے ایک ناول ” Barndommens gade” یعنی ’’ بچپن کی گلی‘‘ پر 1980ء میں ایک فلم بنی جس نے ملک میں تہلکہ مچا دیا ۔ ان کی نظموں اور گیتوں کے لیے کئی البم تیار ہوئے جنہیں ہر خاص و عام نے پسند کیا اور ان کی یہ مقبولیت آج بھی ویسی ہی ہے ۔ ان کے اور اور ناول “Flickering Light” یعنی ’’مثلِ نور، سوسو چراخ‘‘ ( یہ اردو نام میرا دیا ہوا ہے) پر سن 2000 ء میں ایک فیچر فلم کیا بنی ملک بھر میں اس کی مقبولیت کے ڈھنڈورے بجنے لگے ۔ مجموعی طور پر انہوں نے مختلف ادبی اصناف کی انتیس کتابیں تخلیق کیں ۔ انہیں کئی اعلیٰ ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ سن 1967 ء میں ڈنمارک کی یہ عظیم اور منفرد مصنفہ و شاعرہ بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر ’’ ابدی نیند‘‘ سوگئیں ۔
اس کہانی کے مترجم جناب نصر ملک کے متعلق یہ بتاتے چلیں کہ وہ اردو کے خود بھی بہت اچھے افسانہ نگار ہیں،وہ کافی عرصے سے ڈنمارک میں رہتے ہیں اور اردو ادب کو انہوں نے اپنے تراجم کے ذریعے بھی توانا بنا رکھا ہے۔ان کے اس فن کا کمال یہ ہے کہ جب بھی ہم انکی ترجمہ کی گئی کسی کہانی کو پڑھتے ہیں،تو ان کے جملوں میں ایسی روانی ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کی اپنی ذاتی تحریر ہو۔اردو کے نامور ادیب شبنم رومانی کے متعلق اپنی ایک تحریر میں وہ اپنے بارے میں کچھ یوں بلکہ بہت ہی مختصر انداز میں بتاتے ہیں۔
( سن 2007ء) ۔ میری ایک کہانی ’’ زندگی میں تجھ سے پیار کروں گا‘‘ ، جسے لاہور اور اسلام آباد کے چند ایک ادبی رسالوں نے شائع کرنے سے انکار کردیا تھا جناب شبنم رومانی نے اسے اپنے رسالے ’’ اقدار ‘‘ کے شمارہ نمبر15, 16 جلد 2 میں نہ صرف شائع کیا بلکہ اس کے ساتھ بطور مدیر ایک نوٹ بھی لکھا جو میرے لیے بھی بڑا دلچسپ تھا ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ یہ ایک بدیسی معاشرے کی کہانی ہے ۔ مگر بہرحال یہ ہمارے ہی جیسے کچھ انسانوں کی بپتا ہے ۔ جو باتیں ہمارے ہاں معیوب ہیں وہاں مساتحس ہیں ۔ جو رویے ہمارے ہاں احسن ہیں اُن کو وہاں حیرت سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ کہانی ہم کو اُس روح سے از سر نو متعارف کراتی ہے جو قالب میں داخل ہوتے ہی گھبرا کر باہر نکل آئی تھی کہ اے میری خالق! اندر تو بڑا اندھیرا ہے ۔‘‘ (شــبــنــم رومانی ) ۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں اپنے پیاروں کے درمیان بلند مقام عطا کرے ۔ آمین ۔ ( نـصـر ملک) ۔
اب آتے ہیں ،ٹووِ ارما مارگریٹ ڈٹلیوسن کی تخلیق “خوف ” کی طرف۔جس طرح پچھلی صدی ، یعنی بیسویں صدی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹرکی صدی تھی ،تو آب اس وقت تمام دنیا میں کہا جارہا ہے کہ موجودہ صدی ، خوف کی صدی ہے۔نائن الیون سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ خوف صرف تیسری دنیا میں پایا جاتا ہے،جبکہ اب اس حقیقت کو مانا جاتا ہے کہ یہ خوف اب یورپ میں بھی سرایت کر چکا ہے ، بلکہ اب تو یہ تمام دنیا کا حصہ بن چکا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔اس حقیقت سے اب کسی کو بھی انکار نہیں کہ اس وقت ساری دنیا پر پانچ خوفناک چڑیلوں یا پانچ بڑی طاقتوں کا راج ہے،جو اپنے ہتھیاروں اور دہشت گردی کے ذریعے خوب پیسہ بنا رہے ہیں۔بظاہر تو وہ اس دہشت گردی کے خلاف چیختے ہیں اور اس کا الزام تیسری دنیا کے ممالک کو دیتے ہیں ، لیکن اندر ، اندر سے وہ بری طرح سے ، اسے پھیلانے میں مصروف ہیں اور وہ اس نیک کام کے لئے اپنے بہت سارے گماشتے بھی رکھتے ہیں ۔ موجودہ دنیا ، سوشل میڈیا کی دنیا ہے،اسی لیے بڑی طاقتوں کا یہ کھیل اب کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ عجیب سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، خوف ان کے وجود کا بنیادی حصہ بن چکا ہے ، جو ان کو طرح ، طرح کی ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے ۔اسی لئے دنیا بھر کے اہل قلم ان بڑی طاقتوں اور ان کے گماشتوں کو اس خوفناک کام سے روکنا چاہ رہے ہیں۔ موجودہ کہانی میں اسی بات پر احتجاج کیا گیا ہے کہ اس خوف نے آج کے ایک عام انسان کو کس قدر حساس اور شکی مزاج بنا رکھا ہے کہ وہ ایک معمولی سی بات پر بھی کسی فرشتہ صفت انسان کو اپنا دشمن سمجھنے لگ جاتا ہے۔

2 comments

  1. محترم جناب فاروق سرور صاحب، سلام مسنون ۔ آپ نے جس خوردبینی سے میری ترجمہ کردہ، ڈینش مصنفہ ٹوو ڈٹلیوسن کی کہانی ’’ خوف ‘‘ کا ےجزیہ کرتے ہوئے عصر حاضر میں ’’ ہر فرد کے خوف زدہ رنے ‘‘ کا ذکر کیا ہے ، اس سے آ پ کی ناقدانہ فنی اہلیت کا ادزاہ ہو تا ہے ۔ آپ نے کہانی کے ایک کردرا ’’ موچی ‘‘ اور اس کی ایک لمحہ بھر کی ’’چپ یا خاموشی ‘‘ کی وجہ سے جارج بابو جیسے شخص پر پڑنے والے اژرات کا بھی کوب تجزیہ کیا اور موجود پر اشوب دور میں بڑے طاقتوں کی چھیلائے ہوئے خوف کا بھی خوب پردی چال کیا ہے ، ممنون ہوں آپ نے قدر افزائی کی ۔ سلامت رہیں ۔

    Liked by 1 person

Leave a comment